کیا آپ کو لگتا ہے کہ دیویندر فڑنویس مہاراشٹر کے اگلے وزیر اعلیٰ ہوں گے؟
چاہت محمد قاسمی
ایک زمانہ تھا جب مسلمان علوم حاصل کرنے کے
لئے ہزارہا میل کا سفر طے کرتے تھے ، بھوکے، پیاسے بے آسرا چٹیل میدانوں کی
خاک چھانتے، پر خطر جنگلات کی زمین ناپتے، سمندر کی گہرائی اور خشکی کی
طوالت کو علمی تحصیل کے واسطے عبور کرنا اپنی سعادت سمجھتے تھے ، گھر
کھانا، پانی، دانا، دلیہ کچھ نہ ہوتا، شب و روز گھر میں چولہا نہ نیوارا
پیٹ کی آگ درختوں کے پتے کھاکر بجھانا گوارا کرتے لیکن جہالت کے داغوں کے
ساتھ رہنا نیز علوم و فنون اور معرفت سے دور ہونا برداشت نہ کرتے۔ نہ موٹر
تھی نہ گاڑی، نہ جہاز تھا نہ ریل، گھنٹوں کا سفر دنوں میں طے ہوتا، دنوں کا
سفر مہینوں میں پورا ہوتا، جوق در جوق، قافلے اور ٹولیوں کی شکل میں سفر
کیا جاتا، رہزنی، لوٹ مار، اور ڈاکوؤں کا ہر قدم پر خطرہ رہتا، ہر سفر معرض
خطر میں ہوتا، لیکن تمام خطرات، خدشات، تشویشات، اور مصائب و آلام کے
باوجود بھی تشنگان علوم اپنی تشنگی بجھانے، علوم و فنون اور معرفت الہی سے
آراساتہ ہونے کے لئے گاؤں گاؤں، کوچہ کوچہ، قریہ قریہ، ڈگر ڈگر، شہر شہر
خاک چھان کر کسی بھی ماہر اور حاذق کی خدمت میں پہنچ کر اپنی تشنگی دور
کرتے۔ یہیں وجہ تھی کہ آج سے تقریبا دوسو سال قبل کی تاریخ سے ظاہر ہوتا ہے
کہ سب سے زیادہ محقق، مدقق، اسکالر، جغرافیہ داں، طبیب، ڈاکٹر اور سائنس
داں اسلام میں پیدا ہوئے،اسی مذہب کے آغوش میں ہی تراشے، خراشے اور تربیت
دیکر پروان چڑھائے گئے تھے۔
لیکن آج کیا ہوا کہ مسلمان علوم و فنون
اور معرفت الہی سے دور بہت دور ہوکر جہالت کے گھٹا ٹوپ اندھیروں اور عمیق
کنویں میں جاگرے ہیں؟؟ نہ دینی علوم سے آراستہ ہیں اور نہ ہی عصری علوم سے
پیراستہ ہیں، نہ طاقت ہے نہ زیور، نہ شجاعت ہے نہ لیاقت ، آخر کیا ہوا ان
مسلمانوں کو؟
قارئین کرام!!! ذرا غور کیجئے! ایک وہ دن تھا جب مسلمان علوم و فنون کے لئے مر مٹتے تھے اور ایک آج ہیں کہ انکی حالت زار پر رونا آتا ہے، دل دکھی ہوجاتا ہے۔ ؎
سیاہ رات میں جلتے ہیں جگنوؤں کی طرح
دلوں کے زخم بھی محسن کمال ہوتے ہیں
کہتے ہیں کہ ہر قوم کا مستقبل قوم کے بچے ہی ہوتے ہیں تو پھر آئیے میں آپ
کو مسلمانوں کا مستقبل دکھاتا ہوں، اور ان کی ذلت و پستی سے بھر پور آنے
والے کل کی آج ہی ایک تلخ لیکن حقیقت پر مبنی تصویر دکھاتا ہوں، وہ مجھے
کہاں اور کیسا نظر آیا ہے۔ میں نے دیکھا:
پرا گندہ بوسیدہ لباس، بے
ترتیب گرد آلود بال، خاک آلود چہرہ، گرد و غبار سے اٹے گال، اور بھیک
مانگنے کا عجیب انداز، جو پیچھے لگ جائے تو مقناطیس کی طرح چپک جائے، کسی
ہم دم دیرینہ کی طرح اس وقت تک ساتھ نہ چھوڑے جب تک زبردستی بھیک کسی ٹیکس
کی طرح وصول نہ کرلے، تقریبا دس گیارہ سال کا بھکاری یہ بچہ یقینا مسلمان
ہی ہوگا جو آپ کو کسی بھی گلی گلیارے اور چوراہے کے علاوہ کسی بھی بس
اسٹینڈ اور ریلوے اسٹیشن پر مل جائے گا۔ گلی
گلیاروں اور چوراہوں پر کھیلتے
اور ماں، بہن، بیٹی حتی کہ نانی، دادی تک کا نام لیکر گالی گلوچ کرتے اور
مغلظات بکتے یہ بچے مسلمان ہی تھے؛ میں نے یہ بھی نظارہ دیکھا۔ گاؤں،
دیہاتوں، شہر قصباتوں کے خالی پلاٹوں اور میدانوں میں کھیلتے اور آوارہ
گردی کرتے یہ بچے بھی مسلمانوں کے ہی ہوتے ہیں؛ میں آپ کو یہ بھی دکھاتا
ہوں کہ جنگلات، کھیت، کھلیانوں میں کھانا لے جانے والے اور ذرا بہانے سے
اپنا مستقبل تباہ کرنے والے یہ بچے بھی مسلمانوں کے ہی ہوتے ہیں؛ میں آپ کو
یہ بھی بتلا دیتا ہوں کہ چھوٹے بڑے ہوٹلوں اور چائے کی دکانوں میں بھی
برتن دھوتے ہوئے یہ بچے مسلمانوں کے ہی نظر آتے ہیں؛ اور اس کڑوے سچ سے بھی
رو گردانی نہیں کی جا سکتی ہے کہ جیل، کچہری کے؛ پروانوں کی طرح چکر لگاتے
یہ جوان بچے بھی مسلمان ہی دکھائی دیتے ہیں، اور یہ بھی حقیقت ہے کہ
ہسپتالوں میں علاج کراتے ہوئے یہ بچے بھی مسلمانوں کے ہی نظر آتے ہیں،
گندگیوں، اور کوڑیوں پر پرانی پلاسٹک، پولوتھین اور دیگر بوسیدہ چیزیں تلاش
کرتے بچوں کے نام بھی اسلامی ہی سنائی دیتے ہیں۔
اف کیا کہوں۔ ایک
مسلمانوں کا سنہرا کل تھا جب لوگ ہمارے تہذیب و تمدن، آداب و سلیقہ کی
مثالیں دیا کرتے تھے، حسن کردار، حسن اخلاق، اور خوبصورت انداز کی قسمیں
کھایا کرتے تھے، لیکن ایک آج ہے جس میں لوگ مسلمانوں کی جہالت، علوم و فنون
سے نا آشنائی کا تذکرہ کرتے ہوئے نہیں تھکتے ہیں۔
ایک دور تھا جب
مسلمانوں کا نصب العین علوم و فنون میں مہارت اور میدان جہاد میں شجاعت تھا
اور ایک آج ہے جس میں جہالت، تاریکی، بدنصیبی، پستی اور پسماندگی مسلمانوں
کا نصیب بن گئی ہے۔ خدارا اپنی اولاد کے مستقبل کی کچھ تو فکر کیجئے، اور
دس دس بیس بیس روپئے پر اپنی اولاد کی زندگی برباد نہ کیجئے، اس کا بھی
لحاظ کیجئے اور یہ بھی یاد رکھئے کہ یہ بچے صرف آپ کے نہیں بلکہ پوری امت
کے ہیں، اگر یہ جاہل تو امت بھی جاہل، اگر یہ عالم تو امت بھی صاحب علم
کہلائے گی، اگر یہ پسماندہ پچھڑے ہوئے بنیں گے تو صرف یہی نہیں بلکہ پوری
امت اور اھل اسلام پسماندہ اور پچھڑے ہوئے کہلائے جائیں گے، اسی لئے میں
دست بستہ عرض کرتا ہوں، اور آپ سبھی والدین سے درخواست کرتا ہوں کہ بھوکے
پیٹ سوجائے، پرانے کپڑوں میں گذارا کر لیجئے، چھوٹے مکان میں بسر کر لیجئے
لیکن اپنی اولاد کو پسماندہ، پچھڑا ہوا مت بنائے، انہیں تعلیم ضرور دیجئے،
اسلامی کردار، حسن گفتار، اعلی اخلاق اور بہترین انداز سکھائے، دینی علوم
کے ساتھ ساتھ عصری علوم اور حسب موقع فنون سے بھی آگاہی ضروری ہے۔ بعد ازاں
ان شاء اللہ تعالی آپ حضرات خود اس کے ثمرات کا مشاھدہ کریں گے۔
راہی حجازی نے کیا بر موقع اور بر محل شعر کہا ہے۔
دن پلٹ آئیں گے، بے شک پلٹ آئیں گے، مگر
علم کے ہر سو ہمیں پودے لگانے ہونگے
اللہ اعلی اخلاق اور اعلی کردار عطا فرمائے۔
دعا کا طالب
چاہت محمد قاسمی